پچھلے دنوں میسورکے راجانرسمہاراجو وڈیر کاا نتقال ہوا تھا اور ان کے
انتقال پر حکومت نے لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہوئے ان کی آخری رسومات انجام دی
۔1500؍ کروڑ روپئے کی ملکیت کے مالک وڈیرخاندان کی 40؍ ہزارکروڑ روپئے کی
املاک کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور اگرعدالت ان کے حق میں یہ
فیصلہ سنا دیتی ہے تو وڈیر خاندان کی جملہ املاک41500؍ کروڑ روپئے
جائیگی۔راجستھان کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راج بھی شاہی خاندان سے ہی وابستہ
ہیں،اسی طرح سے ملک بھر کے مختلف راجا مہاراجوں کی آل شاہانہ زندگی گذار
رہی ہے۔لیکن ہندوستان میں سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف تلوار اٹھانے والے
مجاہد وطن حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ کے اہل خانہ کا آج کیا حال ہے اور یہ
گھرانہ کہاں پر ہے یہ جان کر کسی کو خوشی تو نہیں ہوگی البتہ میر صادق اور
میر جعفر کو جس طرح سے آج بھی دنیا بد دعائیں دیتی ہے اسی طرح سے حکومت
کیلئے بد دعائیں نکلے گیں۔ٹیپو سلطان کا مقام کیا تھا اور اُن کی طاقت کیا
تھی یہ صرف ہندوستانی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی قومیں جانتی ہیں۔اس عظیم
گھرانے کے اہل خانہ کاحال ہمارے قارئین تک پہنچانے کیلئے یہ خصوصی رپورٹ
پیش کی جارہی ہے۔کلکتہ کے ٹولی گنج علاقہ کے جھونپڑپٹی میں ٹیپو سلطان کے
بیٹے فتح حیدر کی چھٹویں نسل سلطان اکبر شاہ ایک جھونپڑی میں زندگی گذار
رہے ہیں۔سڑکوں پر پان مسالہ سگریٹ بیچنا ان کاپیشہ ہے۔ان کے چار بچوں میں
سب سے بڑا بیٹا انورشاہ اور سنوبر شاہ دونوں کرایہ کے رکشا چلا رہے
ہیں۔اپنے عالم دادا کے پر پوتے تعلیم سے نا واقف ہیں۔انور شاہ کا کہنا ہے
وہ اس سائیکل رکشا قریب 100؍ روپئے کی کمائی کرتے ہیں اور بیس روپئے سائیکل
کے مالک کو کرایہ ادا کرتے ہیں۔ان کے پاس اپنی سائیکل خریدنے کیلئے پیسے
نہیں ہے اور وہ قرضہ لینے سے بھی ڈرتے ہیں کیونکہ وہ اگر کسی وجہ سے قرضہ
کی ادائیگی نہیں کرینگے تو ان کے داد ا کا نام بدنام ہوگا۔اور ایک بیٹا
بلاور شاہ سائیکل رکشا چلایا کرتے تھے اور اب سائیکل رکشا چلانے کی طاقت نہ
ہونے کی وجہ سے سیکوریٹی گارڈ کے طور پر ایک عمارت کے سامنے کھڑے ہورہے
ہیں۔ان کی بیٹی کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنیں لیکن آج وہ غیروں
کے گھروں پر کام کرنے کیلئے مجبور ہے۔ممکن ہے کہ ہندوستان میں یہ ایسا
واحد خاندان ہوگا جو اس قدر مجبور زندگی گذار رہا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ
ٹیپوسلطان نے ان کیلئے کچھ بھی میراث نہیں چھوڑی تھی،ان کے پاس کروڑوں
روپئے کی جائیداد موجود تھی لیکن وہ اب حکومتوں اور وقف بورڈ کے ماتحت
ہوچکی ہے۔باوجود اس کے انور شاہ و ان کے اہل خانہ اپنے آپ کو شاہی خاندان
کے چشم وچراغ ہی کہلان پسند کرتے ہیں۔ٹیپو سلطان کے دوسرے بیٹے غلام محمد
شاہ نے1872؍ میں اپنی املاک کے تحفظ کیلئے ایک ٹرسٹ قائم کیا تھا اور یہ
املاک اپنے ہی گھرانے کیلئے وقف کیا تھا۔ ٹیپو سلطان کے خاندان کے نام پر
کلکتہ کے رحمت ایسٹیٹ اور ٹولی گنج میں دو مسجدیں بھی ہیں۔ ٹولی گنج علاقہ
میں ہی ان کی ملکیت میں شمار ہونے والی پانچ ایکر زمین پر آج حکومت نے ٹولی
گنج کلب قائم کیا ہے جہاں پر انٹر نیشنل ہارس رائڈنگ کلب،بار،گولف کا
انتظام کیا گیا ہے اور اس سے ہر ماہ کروڑ وں روپیوں کی آمدنی حکومت کو
ہورہی ہے۔ٹیپوسلطان کی ہی جائیداد میں شمار ہونے والے26؍ ایکر زمین پر آج
مشہور رائیل گولف کلب بنایا گیا ہے اور بنسل اسٹریٹ میں ایک عالیشان بنگلہ
موجود ہے جسے حکومت نے وجئے ملیا کو75؍ سال کیلئے گروی پر دیا ہے۔ولی احمد
شاہ جو ان کی چھٹویں نسل میں سے ہیں،ان کے بچوں کا کہنا ہے کہ ان
کے بابا
نے تاحیات اس املاک کو حاصل کرنے کیلئے کورٹوں کے چکر لگاتے تھے لیکن اب تک
انہیں اس میں کامیابی نہیں حاصل ہوئی۔بلاآخر حکومت نے یہ طئے کیا تھا کہ
ٹولی گنج اور رائیل گولف کلب کی آمدنی میں سے ماہانہ95؍ لاکھ روپئے جبکہ
شاہ والاس بنگلہ کی آمدنی میں سے ماہانہ ایک کروڑ روپئے کا چندہ ان کے اہل
خانہ کو دیا جائے لیکن یہ صرف اعلان تک ہی محدود رہے گیا۔آج بھی ان کے بچے
شاہ ولاس کے بغل میں ویلڈنگ شاپ چلا کر اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں۔اس
معاملے کو جب وقف بورڈ سے انصاف کیلئے کہا جاتا ہے تو وقف بورڈ انہیں
کاغذات لانے کیلئے کہتا ہے ،کئی دفعہ کاغذات دئیے گئے ہیں مگر بار بار الگ
کاغذ لانے کی بات کہی جاتی ہے۔ایسے میں ہر دن اپنی روزی کو چھوڑ کر وقف
بورڈ کے چکر لگانے سے بھوکے رہنے کے دن بھی کاٹے جانے کی بات ولی احمد شاہ
کہتے ہیں۔مغربی بنگال کی اوقافی املاک ہزاروں کروڑوں روپئے میں ہے یہاں
پر700؍ اوقافی اراضیوں غیروں کے ماتحت ہیں۔ایک ہزار کروڑ روپئے کا اب تک اس
میں غبن ہوا ہے اور صرف پانچ سو کروڑ روپئے ٹیپو سلطان کے اہل خانہ کو
ملنے والی آمدنی میں گھوٹالہ ہوا ہے۔کلکتہ میں ٹیپو سلطان کے عہد سے جڑی
ہوئی کئی یادگاروں کو آج حکومت ختم کرنے پر آمادہ ہے اور کئی یادگاریں ختم
بھی ہوچکی ہیں ۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ کلکتہ کے ہی ستیش مکھرجی اسٹریٹ
پر ٹیپوسلطان کے بھائی بختیار شاہ،سلطان عالم اور نظام الدین شاہ کے مقبرے
بھی ہیں لیکن آج ان مقبروں کے اطراف و اکناف غیر قانونی قبضہ ہے اور اس
پورے محلے کو چار غنڈے اپنے قبضہ میں کر رکھے ہیں اور اس علاقے کی آمدنی کا
حصہ ان غنڈوں کے ہاتھ ہی جاتا ہے۔اس سے بڑی درد ناک بات یہ بھی ہے کہ ٹیپو
سلطان کے دور حکومت میں تعمیر شدہ مسجد میں آج جواّ کھیلا جاتا ہے،شراب
پیالے بیچے جاتے ہیں۔کئی سال قبل حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس علاقے کو
فرسٹ گریڈ ہولی پلیس کے نام سے موسوم کرتے ہوئے یہاں پر ایک یادگار بنائی
جائیگی لیکن آج تک اس پر کام نہیں ہو اہے۔ٹیپو سلطان کے دو بیٹے ٹولی گنج
کی ایک مسجد کے صحن میں مدفون ہیں اور آج یہ مسجد بھی منہدم ہونے کے کگار
پر ہے۔کلکتہ میں اگر ٹیپو سلطان کو عزت دی گئی ہے تو صرف سو میٹر کی ایک
چھوٹی سٹرک کو جسے حضرت ٹیپوسلطان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔سال2009؍ میں
ٹیپو سلطان کی200؍ ویں یوم پیدائش کے موقع پر ان کے اہل خانہ کوتہنیت دینے
کیلئے ریاستی حکومت نے کرناٹک سے ایک وفد بھیجا تھا اور وہ وفد ان سے
رابطہ کرنے میں بھی کامیاب رہا،لیکن اس کے بعد انہیں کوئی تہنیت ملی اور نہ
ہی عزت ملی۔1971؍ کے وقف ایکٹ کے تحت ان کے خاندان کو کچھ بھی سہولیات
نہیں ملی ہیں۔ہندوستانی حکومت سے تو انگریزوں کی حکومت بہتر تھی جنہوں
نے1799؍ میں حضرت ٹیپوسلطان کے خاندان کے تین افراد کو زبردستی کلکتہ بھیج
دیا تھا جہاں پر انہیں شاہی اعزاز ہی دیا گیا تھا اور وہ حکومت نہ ہونے کی
باوجود حکمرانوں کے جیسی زندگی بسر کررہے تھے لیکن آج ان کے اہل خانہ کی
زندگی بھکاریوں سے بد تر ہے۔ریاستی حکومت نے یوم ٹیپو منانے کا اعلا ن کیا
ہے جو کہ خوش آئین بات ہے لیکن ساتھ میں ان کے اہل خانہ سے ہورہی نا انصافی
کو دور کرنے کیلئے خوش قدم اٹھاتی ہے تو ایک تاریخی بات ہوگی۔ملک کیلئے
مرمٹنے والے شہید ٹیپو سلطان کی روح بھی آج تڑپ رہی ہوگی کہ جس زمین کیلئے
انہوں نے اپنی جان قربان کی تھی آج اسی زمین پر اُن کی آل کو رہنے کیلئے دو
گز زمین بھی دستیاب نہیں ہے۔***
نمائندہ اعتمادبیدرمحمدامین نواز‘
Cell No:9731839583